ایک پہاڑ اور گلہری
کوئی پہاڑ یہ
کہتا تھا ایک گلہری
سے
تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے
ذرا سی چیز ہے، اس پر غرور ، کیا کہنا!
یہ عقل اور یہ سمجھ ،یہ شعور، کیا
کہنا!
خدا کی شان ہے نا چیز چیز بن بیٹھیں
جو بے شعور ہوں یوں با تمیز بن بیٹھیں
تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے
زمین ہے پست
مری آن کے آگے
جو بات مجھ میں ہے ،تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں
بھلا
پہاڑ کہاں ،
جانور غریب کہاں
کہا یہ سن
کر گلہری نے ،منہ سنبھال ذرا
یہ
کچی باتیں ہیں دل سے انہیں نکال ذرا
جو میں بڑی نہیں تری طرح تو کیا پروا
نہیں ہےتو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا
ہرایک چیز سے پیدا خدا کی
قدرت ہے
کوئی بڑا،کوئی چھوٹا،یہ اس کی حکمت ہے
بڑا جہان میں تجھ کو
بنا دیا اس نے
مجھے درخت پہ چرھنا سکھا دیا اس نے
قدم اٹھانے
کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں
نری بڑائی
ہے،خوبی ہے اور کیا تجھ میں
جو تُو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو
نہیں ہے
چیز نکمی کوئی زمانے میں