تیرے بغیر ہی اچھے تھے کیا مصیبت ہے
یہ کیسا پیارہےہر دن جتانا پڑتا ہے۔۔۔
تم نے بکنا ہے تو بیوپار بھی ہوسکتا ہے
چاہنے والا خریدار بھی ہوسکتا ہے
اپنے دشمن کو ابھی شک کی نگاہوں سے نہ دیکھ
تیرا قاتل توتیرا یار ہوسکتا ہے
عشق سولی ہے تو مرنے کی روایت کیسی
پیار زندہ تو سردار بھی ہوسکتا ہے
اس کا منظور کون ہے معلوم نہیں
مجھ سا کمبخت گنہگار بھی ہو سکتا ہے
مجھ سے دامن نہ چھڑا مجھ کو بچا کر رکھ لے
مجھ سے اک روز تجھے پیار بھی ہو سکتا ہے
اپنی بانہوں سے کیوں ہٹاؤں اسے
سو رہا ہے تو کیوں جگاؤں اسے
جو بھی ملتا ہےاس کا پوچھتا ہے
یار کس کس سے میں چھپاؤں اسے
چھوڑ جانااس کی مرضی تھی
اسکی غلطی پے بھی مناؤں اسے
دور اک ستارا ہے
اور وہ ہمارا ہے
آنکھ تک نہیں لگتی
کوئی اتنا پیارا ہے
چھو کے دیکھنا اسکو
کیا عجب نظارہ ہے
تیر آتے رہتے تھے
پھول کس نے مارا ہے؟
جانے کس آنکھوں سےبہتے ہیں آنسوؤں مجھ میں
میں تو ایک جہنم ہوں کیوں رہتا ہے تو مجھ میں
جون کہیں موجود نہیں میرا ہم پہلو مجھ میں
سب سے بے زار ہوگیا ہوں میں
ذہنی بیمار ہوگیا ہوں میں
کوئی اچھی خبر نہیں ملتی مجھ میں
یعنی آخبار ہوگیا ہوں میں
کسی لباس کی خوشبوجب اڑ کے آتی ہے
تیرے بدن کی جدائی بہت ستاتی ہے
تیرے بغیر مجھے چین کیسے پڑتا ہے
میرےبغیر تجھےنیند کیدے آتی ہے
ٹھیک ہےکچھ نہیں کیا تم نے
بس یہ ایک زخم ہی دیا تم نے
باغ میں دل بھی تھا
میرا موجود
پھر بھی ایک پھول
چن لیا تم نے
زندگی بھر پھول ہی بھجواؤگے
یا کسی دنخود بھی ملنے آؤ گے
خود کو آئینے میں کم دیکھا کرو
ایک دن سورج مکھی
بن جاؤ گے
پہرے داروں سےبچوں گا کب تلک
دوست! تم اک دن مجھے مرواؤگے
کرنا ہو ترک تعلق تو کچھ ایسے کرنا
ہم کو تکلیف نہ ہو ذکر تمہارا کر کے
اس لیے اس کو دلاتا ہوں میں غصہ تابش
تاکہ دیکھوں میں اسےاور بھی پیارا کر کے
بس یہی کہہ کےاسے میں نے خدا کو سونپا
اتفاقاً کہی مل جائےتو روتا نہ ملے
بددعا ہے کہ وہاں آئیں جہاں بیٹھتے تھے
اور افکار وہاں آپ کو بیٹھا نہ ملے
تو بہت روکے گی لیکن میں جدا ہو جاؤں گا
زندگی اک روز میں تجھ سے خفا ہو جاؤں گا
تو مصلے پرمیری نیت تو باندھے گی مگر
میں نماز عشق ہوں تجھ سے قضاء ہو جاؤں گا
بے وفائی کا دیااس نے حسن طعنہ مجھے
اور اب میں احتجاجاًبے وفا ہو جاؤں گا
تم سے تمہارے بعد یہی واسطہ رہا
بچھڑے ہوؤں میں نام تیرا ڈھونڈتا رہا
لکھ تو دیا کہ آج سےتم میرے نہیں
لیکن قسم سے ہاتھ میرا کانپتا رہا
محبت ہو نہیں پائی تو اس کاکیا کروں میں
کہ میں تو اس گلی میںآنے جانے لگ گیا تھا
تبھی تو میری آنکھوں کو
نہیں رونے کی عادت
میں چھوٹی عمر میں آنسوؤں چھپانے لگ گیا تھا
اب مزید اس سے یہ رشتہ نہیں رکھا جاتا
جس سے اک شخص کا پردہ نہیں رکھا جاتا
ایک تو ب میں نہیں تجھ سے محبت نہ کروں
اور پھر ہاتھ بھی ہلکا نہیں رکھا جاتا