مرزا غالب
مرزا غالب اردو اور فارسی کے ممتاز شاعر تھے،جنہیں
مغل دور کا آخری عظیم شاعر سمجھا تھا۔
یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ /19ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ /18ویں میرتقی میر
کی اور /20ویں علامہ اقبال کی۔غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے
حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق
اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے
لئے بیان کردیتے تھے۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے دیکھا۔غالباً یہی وہ پس
منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
مرزا غالب کا نام اسداللہ بیگ خاں تھا۔باپ کا نام عبداللہ
بیگ تھا۔ غالب بچپن ہی میں یتیم ہوگئےتھےان
کی پرورش ان کے چچا مرزا نصراللہ بیگ نے کی لیکن آٹھ سال کی عمرمیں ان کے چچا بھی
فوت ہو گئے۔ نواب احمد بخش خاں نے مرزا کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقرر
کرادیا۔1810ئ میں تیرہ سال
کی عمر میں ان کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی مرزا الہٰی بخش خاں معروف کی
بیٹی امرائ بیگم سے ہوگئی شادی کے بعد انہوں نے آبائی وطن کو خیرباد
کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ شادی کے بعد کے اخراجات بڑھ گئے اور
مقروض ہوگئے۔اس دوران میں انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور قرض کا بوجھ
مزید بڑھنے لگا۔آخر مالی پریشانیوں سے مجبورہو کر غالب نےقلعہ کی ملازمت اختیار کر
لی اور 1850ئ میں بہادر شاہ ظفر نے "مرزا غالب کو نجم الدولہ
بیرالملک نطام جنگ" کا خطاب عطافرمایااور خاندان تیمورکی تاریخ لکھنے پر مامور کر دیا اور 50روپے ماہوار مرزا کا وظیفہ مقرر ہوا۔ غدر
کے بعد مرزا کی سرکاری پنشن بھی بند ہوگئی ۔ چنانچہ انقلاب 1857ئ کے مرزا نے نواب یوسف علی خاں والیِ رامپور کو امداد کےلئے
لکھا انہوں نے سو روپے ماہواروظیفہ مقرر کردیا جو مرزا کو تادمِ حیات ملتا رہا۔
کثرت شراب نوشی کی بدولت ان کی صحت بالکل تباہ ہوگئی مرنے سے بےہوشی طاری رہی اور
اسی حالت میں 15فروری1869ئ کو
انتقال فرمایا۔
کچھ اشاعر بھی تحریر ہیں؛
"ہم اپنے دور کا
شکوہ تم سے کیسے کریں
محبت تو ہم نے کی ہے
تم تو بے قصور ہو"
بس کہ دشوار ہے ہر
کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر
نہیں انساں ہونا
درد ہودل میں تو دوا
کیجئے
دل ہی جب درد ہو تو
کیا کیجئے
جاتے ہوئے کہتے ہو
"قیامت کو ملیں گے"
کیا خوب!قیامت کا ہے
گویا کوئی دن اور
عشرتِ قطرہ ہے دریا
میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا
ہے دوا ہو جانا
بے خودی بے سبب نہیں
غالب
کچھ تو ہے، جس کی
پردہ داری ہے
ان کے دیکھنے سےجو
آتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ
بیمار کا حال اچھا ہے
بے وجہ نہیں روتا عشق
میں کوئی غالب
جسے خود سے بڑھ کے
چاہو وہ رُلاتا ضرور ہے