ہمارے اساتذہ کے لیے کچھ الفاط
استاد کی عزت کرو، یہ وہ ہستی ہے جو تمہیں
اندھیرے سے نکال کر روشنی
کی راہ دکھاتی ہے
ہمارا فخر ہمارے اساتذہ
انہی سے وابستہ ' ترقی کا راستہ
بند ہو جاتے ہیں جب
سارے دروازے
نیا راستہ دکھاتے ہیں آپ
تعلیم ایک ایسا کاروبار ہے
جو باقی کاروبار تخلیق کرنا ہے
اور اسے عروج تک پہنچانے میں استاد ہی کا ہاتھ ہوتا ہے
ایک اچھا استاد ایک چراغ کی طرح ہے
جو دوسروں کو روشنی دینے کے لیے خود کو جلا دیتا ہے
اچھا استاد جانتا ہے کہ اپنے طالب علم
کے اندر سے بہترین کیسے نکالنا ہے!
جس گھر میں تعلیم اور نیک ماں ہو
وہ گھر تہذیب اور انسانیت کی یونیورسٹی ہے
استاد بادشاہ تو نہیں ہوتا
مگر بادشاہ بناتاہے
یہ جو ہماری درسگاہوں میں استادہوتے ہیں
حقیقت میں یہی قوم کی بنیاد ہوتے ہیں
زندگی استاد سے زیادہ سخت ہوتی ہے کیونکہ استاد
سبق دے کر امتحان لیتا ہے اور زندگی امتحان لےکر
سبق دیتی ہے۔
دیکھا نہ کحکن کوئی فرہاد کے بغیر
آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر
اب مجھے مانے نہ مانے اے محافظ
مانتے ہیں سب میرے استاد کو
استاد معاشرے کا نمک ہے جو تھوری مقدار میں ہونے کے باوجود
ذائقہ
بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
استاد شعور ذات کے سفر میں
رہنمائی کرنے والا اور علم کارکھوالا ہے
رہبر بھی یہ، ہمدم بھی یہ، غم خوار ہمارے
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے
جن کے کردار سے آتی ہو صلاحیت کی مہک
ان کی تدریس سے
پتھر بھی پگھل جاتے ہیں
استاد کی عظمت کو ترازو میں نہ تولو
استاد تو ہر دور میں انمول رہا ہے
تعلیم کو لکھیں اگر تاج محل ہم
اس پیکر تدریس کو محراب لکھیں گے
اپنے استادوں
کو پایا ہم نے مشفق و مہربان
حق نے بخشے ہیں انہیں اوصاف میر کارواں
وہی شاگرد پھر ہوجاتے ہیں استاد اے
جوہر
جو اپنے جان و دل سے خدمت استاد کرتے ہیں
سنگ بے قیمت تراشا اور جوہر کر دیا
شمع علم واگہی سے
دل منور کر دیا
فکر و فن تہذیب و حکمت دی شعور واگہی
گمشدان راہ کو گویا کہ رہبر کر دیا
چشم فیض اور دست وہ پارس صفت چھوگئے
مجھ کو مٹی سے
اٹھایا اور فلک پر کر دیا
میرے استاد ہیں پارس تو میں لوہا ہو جاؤں
ان کاایک لمس ملے اور میں سونا ہو جاؤں
ماں باپ اور استاد سب ہیں خدا کی رحمت
ہے روک ٹوک ان کی
حق میں تمہاری نعمت
موت کے بغیر مر نہیں سکتے
تعلیم آسان ہو یا مشکل
استاد کے بغیر حاصل نہیں کر سکتے
کتنی محبتوں سے پہلا سبق پڑھایا
میں کچھ نہ جانتا
تھا سب کچھ مجھے سکھایا
پہنچا دیا فلک تک استاد نے یہاں سے
واقف نہ تھاذرا بھی اتنے بڑے جہاں سے
اے میرے استاد تو ہے ذیشان
تیری عظمت تیری رفعت کو سلام
قافلے فکر کا سالا ر ہے تو
اس زمانے میں جہالت کے خلاف
ہر گھڑی برسر پیکار ہے تو!!!
کسی کی پہچان علم سے نہیں ہوتی
بلکہ ادب سے ہوتی ہے کیونکہ علم تو ابلیس
کے پاس بھی تھا لیکن وہ ادب سے محروم تھا۔
استاد کی ڈانٹ و فنکار یار آئے گی
تم چلتے چلو وہ ہر بات یاد آئے گی
یہ لمحہ گزرتے ہوئے کہہ رہا ہے الوداع۔۔الوداع۔۔
ہر الوداع سے پہلے کی ابتداء یاد آئے گی